میرا میانوالی —————-
عید کے لیئے نئے جُوتوں کی خریداری کالاباغ سے کی جاتی تھی – ہمارے بچپن کے زمانے میں فرمے والی کھیڑی کا فیشن چل رہا تھا – بہت خُوبصورت اور پائدار چیز تھی – مردانہ حُسن کا زیور تھی یہ کھیڑی –
ویسے تو کالاباغ اور میانوالی کے سب کاریگر فرمے والی کھیڑی بنا لیتے تھے ، مگر کالاباغ کے چاچا پَشُو ، چاچا فقیر محمد اور چاچا ابراہیم یہ کھیڑی بنانے کے مشہور سپیشلسٹ تھے – سب سے اچھی فرمے والی کھیڑی 16 روپے میں ملتی تھی — لوگ کالاباغ جاکر اپنی پسند کے کاریگر کو پاؤں کا ناپ اور پانچ سات روپے ساہی (ایڈوانس) دے کر کھیڑی وصول کرنے کی تاریخ لے لیتے تھے – مقررہ تاریخ کو جاکر کھیڑی وصول کر لیتے تھے – بنی بنائی (ریڈی میڈ) کھیڑی بھی مل جاتی تھی ، مگر ساہی والی کھیڑی کی کوالٹی بہت بہتر ہوتی تھی –
یہ کھیڑی بنانے والے ماہرین دُنیا سے رُخصت ہو گئے تو فرمے والی کھیڑی کا رواج بھی ختم ہوگیا – اب پشاوری چپل کا فیشن برپا ہے – مگر حُسن میں فرمے والی کھیڑی اس سے ہزار درجے بہتر تھی – اب تو اس کی پکچر بھی نایاب ہے۔ جس نے یہ کھیڑی پہنی یا دیکھی ہو وہی جانتا ہے کہ یہ کیا لاجواب چیز تھی- پشاوری چپل اُس زمانے میں بھی بنتی تھی ، مگر بہت کم لوگ خریدتے تھے – وقت وقت کی بات ہے –
تری دُنیا میں ربِ دوجہاں ایسا بھی ہوتا ہے،
کل کراچی میں جو المناک سانحہ ہوا ، اس کا دُکھ کسی اور موضوع پر لکھنے کی اجازت۔نہیں دے رہا – ہُؤا یہ کہ ایک فیکٹری کےمنتظمین نے غریب لوگوں میں راشن کی تقسیم کا اہتمام کیا – تقسیم کے دوران افراتفری کے عالم میں گیارہ افراد (8 خواتین ، 3 بچے ) کُچل کر جاں بحق ہوگئے – میری نظر میں اُن کی موت بھی کسی درجے میں شہادت تھی کہ غریب لوگ حصولِ رزق کی کوشش میں موت کا شکار ہوگئے – رات گئے تک کی خبروں میں بتارہے تھے کہ چھ مزید افراد کی حالت بھی مخدوش ہے – پتہ نہیں وہ بچ گئے یا مرگئے – مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھی بھگدڑ کے عالم میں اب تک تقریبا اتنے ہی لوگ جان کی بازی ہار گئے –
زیادہ دُکھ اس بات کا ہے کہ مرنے والے بھی غریب ، مارنے والے بھی غریب- نفسا نفسی ، خودغرضی اور جلد بازی میں انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوگئے – ایسا تو بھیڑیئے بھی نہیں کرتے – میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شاید ایسی ہی صورت کے بارے میں فرمایا تھا کہ مُفلسی انسان کو کُفر کی حد تک لے جاتی ہے –
دعا ہے کہ رب کریم اس سانحے کے مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبرِجمیل اور رزقِ وسیع عطا فرمائے –
ہاتھ پاوں میں مہندی لگانا بھی عید کا خاص رواج ہوا کرتا تھا۔ بچے ، بوڑھے اور جوان سب مہندی لگاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ مہندی صرف مرد لگاتے یا لگواتے تھے۔ خواتین اس موقع پر مہندی نہیں لگاتی تھیں۔ وہ صرف مہندی پانی میں بھگو کر گھر کے مردوں کے سپرد کر دیتی تھیں، باقی کارروائی مرد خود کرتے تھے۔
مہندی آج کل والی کیمیکل آلودہ مہندی نہیں بلکہ خالص قدرت کی تخلیق مہندی ہوتی تھی۔ مہندی کے خشک پتے مہندی پاوڈر کی نسبت چار پیسے سستے ملتے تھے، اس لیئے خواتین مہندی پاوڈر کی بجائے پتے ہی خرید لاتی تھیں، اور انہیں گھر پر پیس کر پاوڈر بنا کرپانی میں بھگو دیتی تھیں۔ چاند رات کو لوگ یہ مہندی ہاتھ پاوں میں لگا لیتے تھے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عید کے دن نماز عید کے بعد دعا کے لیئے اٹھے ہوئے مہندی لگے ہاتھوں کی قطاریں دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی مسکرا دیتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سادہ، سچے، سیدھے سادے، بھولے بھالے لوگ تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
سِوَئیاں بنانا رمضان المبارک کی خاص روایت تھی – چکی پر پِسے ہوئے گندم کے آٹے کی سِوئیاں جس مشین پر بنتی تھیں اُسے “گھوڑٰی“ کہتے تھے – جس گھر میں گھوڑی ہوتی وہاں سِوئیاں بنانے والی خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا – موٹے گُندھے ہوئے آٹے کا پیڑا مشین کے مُنہ میں ٹھونس کر ہینڈل گُھمانے سے سوئیوں کے لچھے مشین کی چھاننی میں سے نکلنے لگتے تھے – ان لچھوں کو چارپائیوں پر بچھی صاف چادروں پر سلیقے سے سجاتے رہتے – ایک آدھ گھنٹے میں سوئیاں خُشک ہو جاتیں تو انہیں سمیٹ کر کپڑے کے تھیلوں یا چادروں میں میں لپیٹ کر گھر لے جاتے تھے –
سوئیاں بنانے کی مشین کا ہینڈل گھُمانا خاصا بامشقت کام تھا – اس کام کے لیئے محلے کے کسی کملے بھولے نوجوان کو لالا ، میڈا وِیر ۔ ویرنڑں کہہ کہہ کر دن بھر کام میں لگائے رکھتے تھے- ہمارے ہاں ماموں غلام فرید یہ خدمت سرانجام دیتے تھے – اُنہیں سارے محلے کی خواتین ماما فرید کہتی تھیں- بھانجیوں کی فرمائش کون نظر انداز کر سکتا ہے ، اس لیئے ماموں جان دن بھر مشین کا ہینڈل گُھماتے رہتے تھے
سوئیوں کو پانی میں اُبالنے کے بعد پانی الگ کر کے سوئیوں میں گھر کا خالص گھی اور سُرخ پشاوری شکر ملا کر کھایا کرتے تھے – ویسے تو رمضان المبارک کے دوران بھی کھائی جاتی تھیں ، مگر خاص طور پر عید کے دن کا ناشتہ یہی سوئیاں ہوتی تھیں – بے حد لذیذ غذا تھی – سوئیوں کو منہ میں ڈالتے ہوئے شَڑُپ جیسی آواز منہ سے نکلتی تھی ، اس لیئے انہیں شڑُپ والی سوئیاں بھی کہتے تھے – ہمارے داؤدخیل میں سوئیوں کو سِیمِیاں کہتے تھے – آج بھی ہم سِیمِیاں ہی کہتے ہیں –
——————– رہے نام اللہ کا ——————–
—— منورعلی ملک ——