وہ نقشہ ساز جو اپنے ہنر میں یکتا ہے
کسی مکان کا نقشہ نہیں بناتا اب
اسے مَیں راستے سے اب ہٹا تو سکتا ہوں
اسے مَیں راستے سے کیوں نہیں ہٹاتا اب؟
ندی کا رُخ بھی تمھارے ہی گھر کی جانب ہے
بہار آئی تو پانی میں پھول پھینکیں گے
گماں اکیلے ہیں، اب اس کا ڈر اکیلا ہے
تری گلی کا وہ خاموش در اکیلا ہے
ہزاروں پیڑ یہاں جنگلوں کے باسی ہیں
اور ایک پیڑ ہے جو اپنے گھر اکیلا ہے
اداس رُت ہے، یہاں پر اداس پتّے ہیں
جو سچ کہوں تو یہاں کم نظر اکیلا ہے
حسین وادیو! مجھ کو مزید مت روکو
مَیں جا رہا ہوں، مرا ہم سفر اکیلا ہے
نوید اس کو بھی شاید نہ مل سکے اس سا
وہ مجھ کو چھوڑ کے خوش ہے مگر اکیلا ہے
گرچہ پاس ہوں لیکن مَیں اپنے پاس نہیں
تُو مجھ سے دور بھی ہے اور میرے پاس بھی ہے
پرانی جھیل
پرانی جھیل جہاں تم نے مجھ سے ملنا تھا
حسین تتلیاں مردہ ہیں اس کے پانی میں
پرانی جھیل جہاں موتیوں کی جھلمل تھی
ہزاروں سیپیاں مردہ ہیں اس کے پانی میں
پرانی جھیل جہاں پنگھٹوں کی دنیا تھی
غریب زادیاں مردہ ہیں اس کے پانی میں
پرانی جھیل تو اب وحشتوں کا مرکز ہے
کسی کی سسکیاں مردہ ہیں اس کے پانی میں
پرانی جھیل پہ اب فرقتوں کا موسم ہے
ہماری شوخیاں مردہ ہیں اس کے پانی میں
جَنوں کے شہر کا اپنا سماج ہوتا نہیں
کسی سے چھیننا پڑتا ہے تاج ہوتا نہیں
سَروں پہ بوجھ اُٹھانے کی ان کو عادت ہے
کسی کی گٹھڑی میں کوئی اناج ہوتا نہیں
یہ کون مر گیا ؟ سڑکیں بلاک ہیں ساری
ہم ایسے قتل بھی ہوں، احتجاج ہوتا نہیں
تمھارے شور مچانے سے کچھ نہیں ہو گا
ہم ایسے لوگوں کا کوئی علاج ہوتا نہیں
مَیں پھولوں، پریوں، پرندوں کا ہم مزاج ہوں دوست
تمھارے جیسا مرا ہم مزاج ہوتا نہیں
ابھی تو شامِ محبت ہے، فکر کیسی نوید؟
یہ کام کل کا ہے، ہم سے یہ آج ہوتا نہیں
نہ کم نہ بیش تھی، بس اس قدر تھی پہلے بھی
وہ اک نظر کہ جو پہلی نظر تھی پہلے بھی
دکھائی دیتی نہیں تھی مگر تھی پہلے بھی
یہ زندگی تو مری ہم سفر تھی پہلے بھی
مَیں اب کی بار ترے خواب سے بھی ہو آیا
تری گلی تو مرا مستقر تھی پہلے بھی
یہ اور بات کہ اس بار اِدھر بھی آنے لگی
یہ بے وفائی کی ہمّت اُدھر تھی پہلے بھی
یہ اور بات کہ اب دوستی بھی ہونے لگی
یہ دشمنی تو بڑی بے ثمر تھی پہلے بھی
یہ اور بات کہ اب چاند بھی نکل آیا
یہ چاندنی تو کسی شاخ پر تھی پہلے بھی
یہ اور بات کہ اب گیت گنگنانے لگی
وگرنہ رقص میں بادِ سحر تھی پہلے بھی
سُنا ہے دشت میں اب جا کے گھر بسائے گی
وہ دل لگی جو کہیں در بہ در تھی پہلے بھی
مَیں آ گیا ہوں تو مجھ کو بھی ساتھ لے کے چل
مَیں جانتا ہوں یہ تیری ڈگر تھی پہلے بھی
تجھے خبر ہی نہیں، اب بھی بے خبر ہے تُو
تُو یہ سمجھتا ہے تجھ کو خبر تھی پہلے بھی؟
یہ پھول، شام، اُداسی، وہی اکیلا پن
یہ رہ گذر تو مری رہ گذر تھی پہلے بھی
نوید! تم نے ہی کم کم اسے کیا محسوس
وگرنہ بے حسی جادو اثر تھی پہلے بھی
نہیں ہیں خواب تو خوابوں کا عکس ڈھونڈو تم
نہیں ہیں پھول تو پھر ٹہنیاں تلاش کرو
تجھے پتا تو ہے کوئی ادھر نہیں آتا
تُو کیسا دوست ہے کہ وقت پر نہیں آتا؟
مَیں انتظار میں رہتا ہوں، رات ہوتی ہے
تُو آتا ہے بھی تو اب اس قدر نہیں آتا
یہ کیسی آنکھیں ہیں جو رات بھر نہیں کھُلتیں؟
یہ کیسا رستہ ہے جو اپنے گھر نہیں آتا؟
دکھائی دیتی ہے منزل، قریب آتی نہیں
سفر میں رہتا ہوں اور ہم سفر نہیں آتا
مَیں سب سمجھتا ہوں، تُو بات کو سمجھتا ہے
مَیں جانتا ہوں کہ تُو بے خبر نہیں آتا
تُو مجھ سے سیکھ، مقابل تُو میرے مت آ دوست!
تُو مان لے تجھے میرا ہنر نہیں آتا
نوید بھی کہیں مصروف ہوتا ہے دن بھر؟
سب آتے جاتے ہیں اک وہ نظر نہیں آتا
نوید ویسے ہی باتیں مَیں کرتا رہتا ہوں
نوید ویسے تو کوئی ہنر نہیں آتا
یہ پھول بھی تو مرا دل دُکھانے لگتے ہیں
یہ تتلیاں تو مری بات تک نہیں سُنتیں
پانیوں کی ، بادلوں کی ، بارشوں کی داستاں
مجھ سے کیا تم پوچھتے ہو ساحلوں کی داستاں؟
ڈگ مگاتی ، لڑکھڑاتی ، لغزشوں کی داستاں
زندگی تو ہو گئی ہے حادثوں کی داستاں
نفرتیں تقسیم ہیں ، سب اُلفتیں تقسیم ہیں
شور کرتی پھر رہی ہے سرحدوں کی داستاں
لوگ سننا چاہتے ہیں اور ہی قصے نوید
تم سناتے جا رہے ہو آئینوں کی داستاں
پتوں کے ساتھ ساتھ ہی باتیں پڑی رہیں
خاموش راستوں پہ بھی گھاتیں پڑی رہیں
ہم لوٹ آئے خواب کے اُجلے دیار سے
اور انتظارِ یار میں بانہیں پڑی رہیں
کسی کی چیخ کو بھی سرخوشی سمجھتے ہیں
لگے جو آگ تو ہم روشنی سمجھتے ہیں!!!
ہم ایسے لوگ ہیں جو اپنی سادگی کے سبب
تری خوشی کو بھی اپنی خوشی سمجھتے ہیں
تری ادا ہے کہ تو مجھ کو دیکھتا ہی نہیں
مگر یہ لوگ اسے بے رُخی سمجھتے ہیں!!
ہمارے ساتھ رہے پھر بھی تو پرایا ہو!!!
ہم ایسی دوستی کو دشمنی سمجھتے ہیں
تمھارے ساتھ کہیں موت چھپ کے رہتی ہے
سمجھنے والے تمھیں زندگی سمجھتے ہیں
ہمیں تو موت ہی منصف دکھائی دیتی ہے
ہزاروں قتل بھی ہم آئینی سمجھتے ہیں!!!
یہ سادہ لوگ خدا کو فریب دیتے ہیں!!!
یہاں تو بت بھی خوئے بندگی سمجھتے ہیں
رنگوں کے گرد باد میں سب نقشِ پا تھے گم
دل خود کو ڈھونڈتا رہا، سب دل رُبا تھے گم
سنتے رہے صدا، پہ صدا سی صدا نہ تھی
آتی رہی نوا پہ سبھی ہم نوا تھے گم
سب عکس، عکسِ خواب تھے، سب خواب، خوابِ عکس
اہلِ نظر بھی گم تھے، سبھی کم نُما تھے گم
روشن شبوں کو ڈھونڈنے والے تمام لوگ
تاریکیوں کے شہر میں بے انتہا تھے گم
ہم جن کو چاہتے تھے، ہمیں چاہتے نہ تھے
ہم جن کو ڈھونڈتے تھے، وہی بارہا تھے گم
ہم تم کو ڈھونڈنے چلے اور شام کو چلے
اور ایسے راستوں پہ کہ کوہِ ندا تھے گم
تم جن پہ چل رہے ہو حریفانہ چال سے
ایسے ہی راستوں میں ہوئے بے وفا تھے گم
ایسا تھا کیا نوید کہ پھر تیرے شہر میں؟
سب خوش سخن خموش تھے، سب خوش ادا تھے گم
ہر بار اپنی ذات کے بردہ فروش سے
اپنے ہی جسم و جان کے سودے میں ہم رہے
ندی کا رُخ بھی تمھارے ہی گھر کی جانب ہے
بہار آئی تو پانی میں پھول پھینکیں گے
بارش بہت ہے، آپ کا رستہ طویل ہے
موسِم یہی رہا تو نہیں آ سکوں گا میں
مجھے بات بات پہ ٹوک مت ، مری بات بات پہ غور کر
کہیں زندگی کو تلاش کر ، کسی آگہی کا ثبوت دے
یہ مت سمجھ کہ تجھے دیکھ کر ہی بِگڑے ہیں
ہمارا مُوڈ تو یوں ہی خراب ہوتا ہے
ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے کے لیے ہاتھ بہت
بچھڑے لوگوں کو ملانے کے لیے کوئی نہیں
نظر چُراؤ تو آنکھوں سے دور ہوں لیکن
نظر ملاؤ تو آنکھوں کے پار میں بھی ہوں
ہم کو آوارہ اگر جانو، تو پھر تم جانو
ورنہ ہم لوٹ کے تو اپنے ہی گھر جاتے ہیں
تم سے کس نے کَہ دیا کہ تم سے ہے میری حیات
میری ساری زندگی میرے ہی دم ہیں تم نہیں